ڈبل ناشتہ
تحریر: بریگیڈیئر(ریٹائرڈ) بشیر آرائیں بی بی جی کیا گئیں کہ ہماری تو دنیا ہی بدل گئی! خوف آتا تھا کہ نوابشاہ گٸے تو خالی گھر کیسے دیکھ پائیں گے. اس عمر میں ماں کے علاوہ کون منہ چومتا ہے اور واقعی یہ خواہش آہستہ آہستہ اندر ہی اندر کہیں دفن ہوتی گٸی. نہ جانے کیوں دیوار پر لگی بی بی جی کی تصویر کو بہت قریب کھڑا ہو کر تب تک دیکھتا رہتا ہوں جب تک نظر دھندلا نہ جاٸے. پھر خود کو ہی سمجھاتا ہوں کہ میاں تصویریں کہاں ماتھا چومتی ہیں. انسان مرنے والوں کے ساتھ کہاں مر پاتا ہے. جیتا ہی رہتا ہے. بیوی، بچوں، دوستوں کی ڈھارس اور ساتھ نوکری کے جھمیلوں نے آہستہ آہستہ میرا درد بھی کم کرنا شروع کردیا تھا. بی بی جی کی غیر موجودگی سب ہی کو محسوس ہوتی تھی مگر اصل تنہاٸیاں تو میاں جی کے حصے میں آئیں. وہ بی بی جی کی وفات کے وقت 95 سال کے تھے اور سنتے بھی کم تھے. ہم کوئی بات کرتے تو انکو سنائی ہی نہ دیتی تھی.جب سمجھ نہ پاتے تو بی بی جی کی طرف دیکھتے اور بی بی جی وہی بات دھیمی سی آواز میں دہرا دیتیں اور وہ ان کے ہلتے ہونٹوں کی طرف دیکھ کر مکمل بات سمجھ جاتے تھے اور اسکا صحیح صحیح جواب بھی دے دیتے ۔ یہ...