انسان اور گدھ کی جبلتوں خصلتوں کا محلول. سندھ کے گدھ(2)
سندھ کے گدھ(2)
مردہ جانوروں اور انسانوں کے گوشت سے رغبت رکھنے والا دو سے چار فٹ کے قد کا یہ پرندہ دو کلو سے 10 کلو وزن تک پہنچ جانے کے باوجود اڑان کی رفتار میں کمی نہیں آنے دیتااور 48 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 37 ہزار فٹ کی بلندیوں تک اڑان بھرنے پر عبور رکھتا ہے. گدھ کا معدہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ گلے سڑے دیو ہیکل جانوروں اور مردہ انسانوں کا گوشت کھاکر بھی بے مزہ نہیں ہوتا. ہاں کبھی لمبا ہاتھ مارلیں اور اوقات سے زیادہ کھالیں تو دوران پرواز قے کر کے پیٹ کا بوجھ ہلکا کر لینے کا فن بھی جانتا ہے. دنیا کے تمام براعظموں میں پایا جاتا ہے لیکن پاکستان اور ہندوستان میں گدھوں کی تعداد جو 1980 تک چار کروڑ کے لگ بھگ تھی بتدریج کم ہو کر 19000 تک آن پہنچی ہے. گدھ چونکہ مردہ جانوروں کے علاوہ انسانی لاشوں کا بھی شکاری ہے اس لیے بادی النظر میں یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مردہ انسانوں کا گوشت رغبت سے کھانے والے گدھوں میں انسانی خصوصیات بھی پروان چڑھتی رہتی ہونگی. گدھ ہمیشہ اپنے گروہ جسے عرف عام میں "مافیہ" کہا جاتا ہے کے ساتھ مردہ جانوروں اور انسانی لاشوں پر لپکتے ہیں.تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی کسی جانور چرند پرند نے گدھوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں بس الو اور عقاب کی طرف سے گدھ کے بچوں کے اغوا کی کچھ وارداتیں ضرور رپورٹ ہوئی ہیں.ماضی بعید میں ہندوستان اور پاکستان میں گدھ ایک بڑی گدھ شماری کا حصہ تھے. قدرتی آفات کے بعد دیہی، پہاڑی اور دریائی علاقوں میں گدھوں کے جھنڈ نمایاں دکھائی دیتے تھے حتی کہ کراچی ڈیفنس کی فضا میں تو اکثر گدھ ہی گدھ دکھائی دیا کرتے تھے. پھر قدرت کا کرشمہ یوں ظہور پذیر ہوا کہ حکومت پاکستان نے ملک میں "کتوں" کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے نجات کے لیے ملک گیر تحریک چلائی اور ملک کے کونے کھدروں میں کتوں کو زہر دے دے کر ہلاک تو کردیا لیکن مردہ کتوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام نا کرسکی اور قدرتی نظام سے مدد مانگی. آسمان سے گدھوں کے جھنڈ زمین پر اترے اور ملک بھر میں زہر سے ہلاک کیے جانے والے مردہ کتوں کو چٹ کر گئے لیکن خود بھی مکافات کاشکار ہوگئے. گدھ مردہ جانوروں اور انسانی لاشوں کے زہریلے مادوں کو تو ہضم کر گیے لیکن انسان کے بنائے ہوۂے زہر کا مقابلہ نہ کر سکے اور چند ہی سالوں میں خطے سے گدھ کی نسل معدوم ہونے لگ گئی لیکن گدھوں نے جاتے جاتے اپنی موت کا انتقام اس طرح لیا کہ صدیوں سے اپنی رگوں میں موجود انسانی خصلتوں اور جبلتوں کو اس دھرتی پر رہنے والے انسانوں میں حلول کر گیے. اب اس دھرتی پر گدھ بہت کم باقی رہ گئے ہیں لیکن گروہ کی صورت دور دراز سے شکار کی نشاندھی، مردہ یا زخمی انسانوں پر جھپٹنے، ان کا گوشت نوچنے اور نوچ کھانے کی جبلت لیے انسان دن بدن بڑھنے لگے. انسانوں میں گدھ کی روح کے فعال ہونے کے مناظر اب چہار سو دکھائی دیتے ہیں جس کا پہلا مظاہرہ اس وقت ہوا جب سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر کے ایک غریب گھرانے کا ہونہار طالب علم جو حکیم صاحب کے کردار کی وجہ سے شہر کے مقتدر حلقوں میں اپنی پہچان بنا چکا تھا ایک بڑی مذہبی جماعت کے مقامی امیر کے پاس حاضر ہواجو ہر سال شہر بھر سے قربانی کی کھالیں، عطیات اور بھاری رقوم شہر کے مخیر لوگوں سے اکٹھے کرتے تھےاور اپنی کالج کی تعلیم کے لیے مالی مدد کی درخواست کی تو اس مذہبی جماعت کے مقامی امیر نے بڑی رعونت کے ساتھ جواب دیا کہ ہم صرف اپنے گروہ یعنی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی مدد کرتے ہیں.شب روز دین اور بھائی چارے کے درس دینے والے امیر صاحب میں انسان نہیں گدھ کی روح نظر آئی تب انسانوں میں گدھ کی خصوصیات کے حلول کا پہلا مظاہرہ دیکھا جو اب انسان اور گدھ کی جبلتوں، خصلتوں کی مشترکہ میراث بن چکا ہے.
تحریر: اختر بخاری
سندھ کے گدھ کی اگلی قسط کے لیے پڑھتے رہییے.. https://politics47.blogspot.com
Comments
Post a Comment