جامعہ کراچی کی ایک یادگار بیٹھک
یوں تو ہر مقام، ہر جگہ کا اپنا ایک رنگ، ایک مزاج اور ایک احساس ہوتا ہے لیکن کچھ مقام ہماری یادوں سے جڑے ہوتے ہیں جبکہ کچھ جگہیں ہماری سوچ اور جذبات کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں. یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ ہر مقام ہر جگہ کا اپنا سحر ہوتا ہے ایسا ہی ایک سحر جامعہ کراچی ہے جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے نہ صرف علم کی پیاس بجھاتے ہیں بلکہ دوستیوں کو پروان چڑھانے کے لیے مجالس کا اہتمام بھی کرتے ہیں،جامعہ سے قربت کو زندہ رکھنے کے لیے مختلف اوقات میں بیٹھکیں منعقد کرتے ہیں
ایسی ہی ایک بیٹھک جامعہ کراچی کے شعبہ نباتیات کے سابق طلبہ و طالبات نے اتوار 13 جولائی 2025 کو شعبہ نباتیات کے اساتذہ کانفرنس روم میں سجائی. بوڑھی روحوں کا جوان امنگوں سے، عمر رسیدہ جسموں کا ولولہ انگیز جذبوں سے، تھکے ماندے ریٹائرڈ انسانوں کا امید افزا خواہشوں سے میل قابل دید تھا. حیات کے سفر کی آخری منزل کے قریب پہنچی روحوں میں ایک مرتبہ پھر جینے کی امنگ جاگی،بڑھاپے کی دہلیز پر خوشیوں کے ترانے بجے اور ماضی کا شرارتی چلبلا سا لڑکپن ہر چہرے پر نمایاں تھا.
شعبہ نباتیات کی اس یادگار بیٹھک میں 70، 80 اور 90 کی دہائیوں میں تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ و طالبات نے شرکت کی جن میں جامعہ کراچی کے سابق رجسٹرار ڈاکٹر سلیم شہزاد، ڈاکٹر جاوید ذکی، ڈاکٹر محمد شفیق، ڈاکٹر زاہدہ پروین، ڈاکٹر محمد افضل رضوی، سید عاصم ریحان کاظمی، سید محسن شاہ. عتیق احمد حبیب اللہ انصاری، محمود ہاشمی، ناہید انجم، بشری سلیم، شجاع الدین، رفیع اللہ، مرزا شاہد بیگ، ندیم اللہ خان، سلیم احمد خان، آفتاب احمد، صدر الدین، عقیل احمد،محمد یونس، کنور سلیم، انور طاہر، معین الدین، اشتیاق صدیقی، محمد اختر شامل تھے. بیٹھک کے آغاز پر شعبہ نباتیات کے مرحوم اساتذہ کرام اور طلبہ سابق صدر سٹوڈنٹس یونین جامعہ کراچی شکیل الرحمن، جوائنٹ سیکریٹری افضال صدیقی، باصر زیدی، اشرف یاسین، محمد اسلم، شمریز، ذاکر حسین، ظفر اقبال شمس کے لیے دعائے مغفرت کی گئی. بیٹھک کے شرکا کے لیے بہتریں طعام کے انتظامات ڈاکٹر سلیم شہزاد اور شہاب جلالی کے ذمہ تھے جسے ایک بہترین ظہرانے کی شکل دے کر دونوں صاحبان نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی. ظہرانے کے بعد شرکا نے تکلف کے تمام بند توڑ کر شہاب جلالی اور بشری سلیم کی طرف سے لائے گئے آموں پر نہ صرف ہاتھ صاف کیے بلکہ بیٹھک کے شرکا کے خلوص کی چاشنی کو بھی دوبالا کردیا.
طعام تناول کرنے کے بعد شرکا کے تعارف کا طویل میراتھن ہوا اور شرکا نے فردا فردا تعارف کے ساتھ ماضی اور حال کی سرگرمیوں پر سیر حاصل گفتگو کی. لاہور سے احمد کمال رانجھا اور اسلام آباد سے نذر محمد یا مین کی مواصلاتی شرکت اس بیٹھک کا اہم سیشن تھا. شرکا نے شعبہ نباتیات کے سابق طلبہ و طالبات کی بیٹھک کو وسیع اور تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کی تجاویز بھی دیں. شرکا نے جامعہ کراچی اور شعبہ نباتیات کی مخدوش اور قابل رحم حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہویے کہا کہ ہماری اس بیٹھک کی طرح مزید بیٹھکیں بھی ہوتی رہیں گی، تجدید وفا اور دوستیوں کی بقا کی بنیادیں بھی مستحکم ہوتی رہیں گی لیکن ہم سب کی مادر علمی کی بقا کا کون سوچے گا جسے سیاسی قبضوں نے گور کنارے پہنچا دیا ہے؟ جامعہ کراچی جیسا عالمی معیار کا تعلیمی ادارہ جس نے اپنی کوکھ سے ایسے قابل سپوت پیدا کیے جنکے نام شہرت کی بلندیوں پر کندہ ہیں قبضے کروانے اور قبضے چھڑوانے کی جاں سوز کشمکش کا شکار ہے.جامعہ کراچی کے قدیم ڈھانچے میں مالی و انتظامی ضعف کی وجہ سے پیدا ہونے والی دراڑیں بھرنے کے لیے جامعہ کے تمام طلبہ و طالبات کو آواز بلند کرنی ہوگی. جامعہ کراچی کے خستہ مالی، انتظامی اور سیاسی حالات پر آواز نا اٹھی تو جامعہ کراچی کی ڈھلتی عمر اس کرپٹ نظام کا مقابلہ نہیں کر پائے گی. فرانس کے ماہرین کی عرق ریزی سے وجود میں آنے والا یہ ادارہ اپنی حیثیت اور پہچان اور بقا کی جنگ لڑ رہا ہے. علم کے تاجر پرائیویٹ اداروں کے مافیہ سے بچانے کے لیے جامعہ کے سابق طلبہ و طالبات کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ ہم سب کی مادر علمی کو اصحاب صفہ کا وہ چبوترہ بنایا جا سکے جہاں سے انقلاب نو کی صبح نمودار ہو.
جامعہ کراچی کے شعبہ نباتیات کی اس یادگار بیٹھ کے اختتام پر شرکا کے گروپ فوٹو کا بھرپور سیشن ہوا جسے بہترین انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ڈاکٹروسیم عباسی نے مکمل کیا. ائے مادر علمی تجھے سلام
تحریر: بشری سلیم شعبہ نباتیات جامعہ کراچی
Comments
تیری آ واذ آ رہی ہے ابھی