یہاں کچھ اچھا نہیں ہوسکتا.! یہاں سب اچھا ہوگا؟!مسلم لیگ(ن) کے لئے اچھی خبر؟ پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 10 اکتوبر کو ملٹری اکیڈمی کاکول میں نئے پاس آؤٹ ہونے والے نوجوان افسروں سے خطاب کرتے ہوئے ان لوگوں کو حوصلہ دیا جو موجودہ سیاسی، معاشی اور امن و امان کی صورتحال سے اس درجہ مایوس ہوچکے ہیں کہ ہر واقعے ہر سانحے اور مہنگائی کی ہر نئی لہر کے بعد ان کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے کہ یہاں کچھ اچھا نہیں ہوسکتا. بظاہر توآرمی چیف نے قوم کے مایوس عناصر کی ہمت بندھانے کی کوشش کی لیکن دراصل ان کے خطاب میں ایک خاص پیغام چھپا تھا جسے پڑھنا انٹیلیجنس کی زبان میں حقیقی ذہانت کہلاتا ہے. پاکستان کے سب سے حساس ادارے کی سروس کے آغاز میں دوران ٹریننگ ہمارے ایک انسٹرکٹر ایک جملے پر بہت زور دیا کرتے تھےIn between the lines جس کا مفہوم یہ تھا کہ کسی اخبار، مجلے یا شخصیت کے دھواں دار بیان، مضمون یا خبر کے اندر چھپی خبر تک پہنچنا ایک قابل انٹیلیجنس افسر کی نشانی ہوتی ہے. سینئر افسران کہا کرتے ہیں کہ حساس ادارے کی تربیت برتاؤ اور اساتذہ کبھی زندگی کے کینوس سے محو نہیں ہوتے سو جیسے ہی آرمی چیف کا بیان سنا یہ امید ہی نہیں بندھی بلکہ یقین ہوگیا کہ یہاں سب اچھا ہوگا. کراچی سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگوں کو یاد ہوگا کہ شاہراہ فیصل پر نرسری اسٹاپ کے قریب جہاں ّجکل پٹرول پمپ اور دیگر عمارتیں بن چکی ہیں ایک سفید رنگ کی عمارت ہوتی تھی جسے اس وقت فرینڈ شپ ہاؤس کہا جاتا تھا اس عمارت کی حقیقت سے ناواقف شہری جو اکثر نوجوان طالب علم ہی ہوتے تھے اگر اس عمارت میں داخل ہونے کی غلطی کر بیٹھتے تو واپسی میں 555 کا ہندسہ ان کے لئے ڈراؤنا خواب بن جاتا تھا. شلوار قمیض میں ملبوس چھ چھ فٹ لمبے ٹرنگے بڑی بڑی مونچھوں والے انجانے چہرے فرینڈشپ ہاؤس جانے والوں کے گھروں تعلیمی اداروں تک پہنچ جاتے تھے۔ دانستہ یا نا دانستہ فرینڈشپ ہاؤس جانے والوں میں سے کچھ ہمیشہ کے لئے غائب کچھ کال کوٹھڑیوں کی غذا اور کچھ پہلی غلطی پر معافی تلافی کے بعد دوبارہ فرینڈشپ ہاؤس جانے سے تائب ہوجاتے تھے ان دنوں میں پاکستان میں کچھ اچھا نہیں تھا. پھر کراچی کے پڑھے لکھے طبقوں نے دیکھا کہ وہی فرینڈشپ ہاؤس نرسری سے ڈیفنس میں منتقل ہوگیا اور اس کے اطراف555 کا آسیب بھی کہیں اور منتقل ہوگیا لوگ آزادی کے ساتھ نہ صرف فرینڈشپ ہاؤس آنا جانا شروع ہوگئے بلکہ ہفتہ وار تقریبات کا بھی آغاز ہوگیا جو آج تک جاری و ساری ہے اس لئے کہ اس وقت پاکستان میں سب اچھا ہونے لگا تھا. یہاں کچھ اچھا نہیں ہو سکتا کی گردان کرنے والے بزرگ پاکستانیوں کو یاد ہوگا کہ ملک میں ایک نیشنل عوامی پارٹی ہوتی تھی جس کا نام لینا جرم جھنڈا اٹھانا جرم اور کسی اجلاس میں شرکت کرنے والے اٹھا لئے جاتے تھے 555 سے ملتے جلتے نئے ناموں والے ویسے ہی افراد سرکاری اداروں، درسگاہوں اور مضافاتی بستیوں میں ایسے لوگوں کے شکار پر مامور تھے جن کی رنگ لب و لہجہ یا لباس نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت سے ملتا جلتا ہوتا تھا. اس جماعت کی قیادت جیلوں میں مقدمات بھگتاتی تھی اور کارکن عدالتوں کے طواف کرنے پر مجبور کر دئیے گئے تھے اس جماعت کے نعرے لگانے والوں کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کا وطیرہ عام تھا 555 کے نئے روپ میں چھپے چہرے نیشنل عوامی پارٹی کا نام لینے والوں پر چن چن کر طبع آزمائی کرتے تھے اس لئے کہ اس وقت بھی پاکستان میں کچھ اچھا نہیں تھا. اہل وطن نے پھر وہ منظر بھی دیکھا کہ اسی نیشنل عوامی پارٹی کے قائدین مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ بنے سینیٹ، قومی،صوبائی اسمبلیوں پر حکمرانی کرتے کرتے پاکستان کے حکمران طبقے کا حصہ بنے اس لیے پاکستان میں سب اچھا ہونے لگا تھا. اسی پاکستان کے ڈرے سہمے عوام نے وہ بھی دیکھا جب پاکستان کے حق میں سب سے پہلے قرار داد پاس کرنے والے صوبے سندھ میں جئے سندھ کے کارکنوں اور قیادت کو ملک دشمن، بھارتی ایجنٹ اور غداری کے القابات سے نواز گیا کراچی سے جیکب آباد تک ہر شہر کی پولیس کو جیئے سندھ کے کارکنوں اور رہنماؤں کے گرد گھیرا تنگ کر دینے کے احکامات زبان زد عام تھے. جیئے سندھ کے نام سے کام کرنے والی کسی بھی تنظیم کے کارکنوں اور قیادت کے لئے سندھ کی زمین تنگ کردی گئی کچھ غائب اور کچھ مبینہ پولیس مقابلوں کی بھینٹ چڑھادئیے گئے۔ سندھ کی کوئی جیل ایسی نہیں تھی جہاں جیئے سندھ کا نعرہ لگانے والا قید نہیں تھا وجہ صرف یہ تھی کہ اس وقت بھی پاکستان میں کچھ اچھا نہیں تھا. پھر ایک دن سندھ کے سیدھے سادے عوام نے دیکھا کہ غداری، ملک دشمنی اور بھارتی ایجنٹ کے تمغوں سے سجے سینوں کے لئے پھولوں کے ہار پہنچا دئیے گئے، سب سے بڑے غدار گردانے گئے بزرگ رہنما کی خدمت میں پھولوں کے گلدستے پیش کئے گئے اور فرینڈشپ ہاؤس کے گرد منڈلانے والے 555 کے کرشماتی ہندسے کو ملک دشمن غدار اور بھارتی ایجنٹ گردانے گئے کارکنوں اور رہنماؤں کی حفاظت پر مامور کردیا گیا. جئیے سندھ کی قیادت صوبائی اسمبلی اور اس سے جڑی متعدد شخصیات قومی اسمبلی تک پہنچی وزارتوں میں حصے دار بنی اور تاحال اقتدار کی راہداریوں میں براجمان ہے اس لئے کہ پاکستان میں سب اچھا ہونے لگا تھا. اسی ملک میں ایسا وقت بھی گذرا کہ ایک جماعت کے کچھ منچلوں نے کلاشنکوف کی زبان میں احکامات جاری کر کے پی آئی اے کے ایک مسافر جہاز کا رخ افغانستان کی جانب موڑ دیا وہاں جاکر ایک فوجی افسر کی لاش جہاز سے باہر پھینکی اور لبیا کی طرف جا نکلے۔ وہ منچلے تو کبھی کسی کے ہاتھ نہ آئے مگر اس جماعت سے تعلق رکھنے والی قیادت اور کارکنوں پر پاکستان کی زمین تنگ کردی گئی. چھوٹے چھوٹے رابطوں، ساتھ پڑھنے والوں یونیورسٹی کے پوائنٹس میں ایک سیٹ پر ساتھ بیٹھنے والوں تک کے گھروں کو جہاز اغوا کرنے والے منچلوں سے تعلق کی بنا پر ایسے ایسے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا گی کہ سن کر روح کانپ اٹھتی تھی. مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اس جماعت پر لنے والے الزامات کی گرد بیٹھی ہی نہیں تھی کہ عالمی دہشت گردوں کی صفوں میں لا کھڑا کیا گیا. ان گنت نوجوان بزرگ کوڑوں اور پھانسیوں کے حقدار ٹھہرائے گئے بے شمار خواتین کراچی کے مشہور زمانہ سی آئی اے سنٹر سے لاہو رکے شاہی قلعے پنڈی کی کوٹ لکھپت جیل کی مہمان بنائیں گئیں کچھ ایسے لاپتہ ہوئے کہ ان کے لواحقین تک زندگی کی جنگ ہار چکے اور کچھ ایسی حالت میں گھروں کو لوٹے کہ زندگی ان کے لئے تہمت بن کر رہ گئی. اس جماعت پر وہ بدترین دور اس لئے آیا کہ اس وقت پاکستان میں کچھ اچھا نہیں تھا لیکن وقت بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے. اس جماعت کی قیادت جیلوں سے بیرون ملک او ر کارکن ہسپتالوں یا گھروں تک پہنچنا شروع ہوگئے پاکستان میں سب اچھا ہونے لگا اور عالمی دہشت گردی کے الزام میں لپٹی وہ جماعت تین مرتبہ پاکستان کی حکمران بنی پاکستان کے سیاہ و سپید کی مالک بنی 555، سی آئی اے، خفیہ والے سب اس جماعت کے مبینہ نامزد دہشت گردوں کے رکھوالے بنے کہ پاکستان میں سب اچھا ہونے لگا. ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے جامعہ کراچی کے چند نوجوانوں نے ملکی سیاست میں بھونچال کھڑا کیا تھا. امید تھی کہ اعلی تعلیمیافتہ متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان ملک میں خدمت کی سیاست کی ایسی بنیاد رکھیں گے جس کا سحر کراچی سے نکل کر چاروں صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لگا لیکن نہ جانے کون بد نظر ان کا دشممن نکلا کہ اقتدار کے سوا نیزے پر پہنچ کر ان کے حصے بخرے کردئیے گئے راتوں رات شہر کی کایا پلٹ گئی آگ اور خون کی سونامینے کراچی حیدرآباد کو ایسا لپیٹا کہ وہ چند نوجوان تتر بتر ہوگئے کیونکہ عین ان دنوں پاکستان میں کچھ اچھا نہیں تھا؛ کہتے ہیں کہ وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا سب کو وقت کا ساتھ دینا پڑتا ہے. اہل سندھ ہی نہیں سارے پاکستان نے دیکھا کہ اس تتر بتر نوجوانوں کے ٹولے کے لئے خصوصی طور پر پاکستان کے حالات اچھے کئیے گئے سندھ سمیت مرکز تک ان کا طوطی بولتا تھا. سندھ پر تین دہائیوں سے حکمرانی کرنے والی جماعت ہر دو ہفتوں بعد ہاتھ باندھے تتر بتر نوجوانوں کے دروازے پر کھڑی دکھائی دیتی تھی سندھ میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص ہر شہری کی سانس کے لئے آکسیجن بھی ان چند نوجوانوں کی دسترس میں دے دی گئی تھی کیونکہ اس وقت پاکستان کے لئے سب اچھا ہونا ضرورت تھی اور ضرورت پوری ہوجائے تو انسان صبر و شکر کا دامن چھوڑ بیٹھتا ہے. نوجوانوں کی اس جماعت کے لئے سب اچھا اور کچھ اچھا نہیں کا سفر ابھی جاری ہے لیکن آرمی چیف کا پیغام ان کے لئے بھی مثبت اعشاریوں کے ساتھ سامنے آیا ہے لیکن آرمی چیف تازہ ترین بیان کو اگر in between the line پڑھیں تو ان کا اصل مخاطب کوئی اور تھا! پاکستان مسلم لیگ(ن). تحریر: اختر بخاری سابق آئی ایس آئی افسر akhtarbukhari@gmail.com

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

قائد مسلم لیگ(ن) میاں محمد نواز شریف کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی میاں اعجاز شفیع کو لانڈھی جیل میں اپنے قائد کے لئے کھانا لے کر جانا اتنا مہنگا پڑا کہ............!

Corruption Giants and their cohorts..Rao Anwar former SSP Sindh Police speaks from heart