اگر آپ کی کمر 38 انچ سے کم ہے تو اس مضمون کو مت پڑھیں....
موٹاپا بیگم کی مانند ہوتا ہے جس سے آپ خوف تو کھا سکتے ہیں جان نہیں چُھڑا سکتے
کہتے ہیں موٹاپا بیگم کی مانند ہوتا ہے جس سے آپ خوف تو کھا سکتے ہیں جان نہیں چُھڑا سکتے کیونکہ یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔موٹاپا بیگم کی طرح دھوم دھڑکے سے تو نہیں آتا دبے پاؤں آتا ہے مگر جانے میں جوتے گھِسا دیتا ہے میری مانئے تو موٹاپے نام کی حقیقت کو تسلیم کیجئے. سیانے کہتے ہیں کہ موٹاپا اتنی بُری شے بھی نہیں اس کے ان گنت فائدے ہیں اُن سے لُطف اندوز ہو کر زندگی گذاریے.
موٹے آدمی طبعاٗخوش مزاج ہوتے ہیں اردگرد کےماحول کو خوشگوار رکھتے ہیں اس کی واضع مثال وطن عزیز کے ایک مشہور و معروف سیاست دان ہیں جن کا نام لینے پر قدغنیں عائد ہیں جو ہر وقت چٹکلے چھوڑنے میں مثال نہیں رکھتے،گالی بھی دیں تو سامنے والا یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے.... واہ حضرت! کیا گالی دی ہے ،اُن کو تو روتا دیکھ کر بھی لوگوں کی بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ لوگ پہلے دل ہی دل میں ہنستے تھے کیونکہ بتیسی نکال کر ہنسنے کی صورت میں بتیسی ہاتھ میں آجانے کا بھرپور احتمال رہتا تھا۔
ہماری ناقص رائے میں موٹے افراد کی حد سے بڑی خوش مزاجی ہی موٹاپےکا باعث ہے کیونکہ اُن کے پاس خوش رہنے کے نسبتاٌ زیادہ مواقع ہوتے ہیں دُنیا میں اکثریت کمرہ نما کمر والے افراد کی ہے اور اپنے سے زیادہ موٹے آدمی کو دیکھ کر دل کو جو فرحت ملتی ہے اس کی قدر کوئ موٹا ہی جان سکتا ہے.
موٹے آدمی بےانتہاخوش فہم ہوتے ہیں آئینے کے سامنے اپنا جائزہ سانس روک کر لیں گے،تصویر کھنچواتے وقت ہاتھ باندھ لیں گے کوٹ کے بٹن بند کرنے کی کوشش کریں گے ہر وقت اپنے آپ کو یہ اطمینان دلاتے رہیں گے کہ ان کا وزن کم ہو رہا ہے یقین نہ آئے تو کسی موٹے ترین آدمی سے اس کے وزن کے متعلق سوال کر لیجئے جواب یہی آئے گا پہلے وزن زیادہ تھا اب تو بہت کم کرلیا ہے.
پریشانی تو موٹے افراد کو چھو کر نہیں گذرتی پریشان ہونے کا کام ارد گرد کے افراد خو د ہی کر لیتے ہیں مثلاً گاڑی میں کہیں جانا ہو اگلی نشست ان کیلئے مختص ہوگی ، عقبی نشست پر نصف درجن افراد مرغا بنے کیوں نہ پھنسے ہوں ،لفٹ میں سوار ہونا ہو یہ سب سے آگے باقی افراد چاہے سیکڑوں سیڑھیاں پھلانگتے پھریں ،جہاز پر ان کے ساتھ پڑوسی مسافر کا سفر انگریزی والا سفر بن جاتا ہے،گلے ملنے کا مرحلہ ہو آپ اپنی سی کوشش کرتے رہیے یہ اپنی توند آڑے کرتے رہیں گے آپ خود فیصلہ کر لیجئےکہ کب رہ و رسم
دنیا نبھا لی ۔
بلا کے صبح خیز ہو تے ہیں ہر چھٹی والے دن انہیں آپ پارکوں میدانوں اور اس سے زیادہ چھولے،پائے،کلچوں کے ٹھیلوں کے سامنے پائیں گے.
موٹے افراد کے پاس ہزاروں موضوعات ہوتے ہیں مگر گفتگو کا دائرہ 99 فی صد وزن گھٹانے کی تجاویز و تراکیب کے گرد گھومتا ہےکہیں چلے جائیے دفتر ،شاپنگ سنٹر یا کوئ تقریب دو وسیع و عریض کمر کے حامل افراد اگر اکٹھے ہوں تو وزن کم کرنے کا کوئ آزمودہ نسخہ ہی زیرِ بحث ہوگا،کھیرےکا جوس،سیب کا سرکہ،زیتون کا تیل ،جو کا دلیہ،بیسنی روٹی ،انواع و اقسام کی جڑی بو ٹیاں اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔۔جنھیں یہ باقاعدگی سے کھاتے ہیں لیکن شکایت یہی کرتے ملیں گے کہ کچھ کھایا نہیں جاتا ہمارا تن وتوش شروع سے فربہی مائل ہے،میٹھا کھاتے وقت اس بات کا اظہار ضرورہوگا کہ ویسے نہیں کھاتا صرف آج کھا رہا ہوں
ہمارا خیال ہے ان کی بسیارخوری میں طبیبوں کا بڑا ہاتھ ہےچنانچہ مجبوراً انہیں قبل وبعد ازطعام کھانے کے علاوہ دوگنی مقدار میں سلاد اور پھلوں سے بھی نبٹنا پڑتا ہے اور درمیانی وقفوں میں مکئ اور چنے بھی پھانکنے پڑتے ہیں ۔پھلوں میں دیگر پھلوں کے ساتھ پپیتا انہیں بے حد مرغوب ہے کہ یہ " دوہری خوشی " کا باعث بنتا ہے۔ایک روز ہمارے فرزند ارجمند نے ہم سے یہ سوال پوچھ ہی لیا کہ وزن کم کرنے کے تمام تر طریقے حلق کے راستے ہی کیوں گزرتے ہیں؟ ناسمجھ کو اس ناسمجھی پر ہم نے جھاڑ تو پلا دی مگر اس کی یہ بات مردِ دانا کی طرح دل میں گھر کر گئی.تب سے اب تک گاہے بہ گاہے ہم بھی اسی سوچ میں ہیں کہ پنساری کے ماہانہ حساب میں وزن کم کرنے والی اشیاْ کا حصہ وزن بڑھانے والی ضروری اشیاْ سے آگےکیوں نکل گیا ہے.تحریر:سلیم عشرت ہاشمی
Comments