ابن آدم ابن آدم سے خوفزدہ تھایا یوں کہہ لیجیے کہ ہابیل قابیل سے خوفزدہ تھا

حادثات شناختی کارڈ دیکھ کر نہیں ہوتے


پتہ نہیں کیوں؟ آج بہت دل چاہ رہا ہے بھولی بسری باتیں یاد کرنے کا...باتیں بھی وہ جن میں کوئی چاشنی نہیں تلخیاں ہی تلخیاں ہیں. یہ اگست 2025 کا وقت چل رہا ہے. گرمیاں عروج پکڑ رہی ہیں. ایسا ہی ایک دن کچھ چالیس برس پہلے بھی آیا تھا اور اس دن نے کراچی شہر کا نقشہ ہی تبدیل کر ڈالا تھا. یہ وہ وقت تھا جب شہر کراچی پاکستان کا معاشی حب، درجنوں قومیتوں کی مشترکہ رہائش گاہ اپنے اندر دھنک کے تمام رنگ، بہار کی ہر خوشبو سمیٹے ہوئے تھا. پھر اچانک کچھ ایسا ہوا کہ برسوں تک کراچی میں خوف و ہراس کی فضا قائم رہی لوگ ایک دوسرے سے ڈرنے لگے.

صبح نو  یا سوا نو بجے کا وقت ہے ایک گرلز کالج کی طالبات فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اپنی درسگاہ کی طرف رواں ہیں کہ اچانک سے بلائے ناگہانی کی صورت ایک منی بس ریس لگاتے آتی ہے اور بے قابو ہو کر فٹ پاتھ پر چڑھ جاتی ہے. طالبات کو سوچنے کا بھی موقع نہیں ملتا چشم زدن میں دو لڑکیاں بری طرح زخمی ہوتی ہیں جن میں سے ایک  چند ہی لمحوں بعد دم توڑ دیتی ہے. کالج کو جانے والی بقیہ طالبات پہلے تو حواس باختہ ہوتی ہیں پھر جب انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کی ساتھی طالبات کے ساتھ کیا ظلم ہوچکا ہے تو اشتعال میں وہ منی بس کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں اس پر منی بس کا ڈرائیور اور کنڈکٹر دوسری بسوں کے ڈرائیورز اور کنڈکٹرز کو اپنی حمائت کے لئے بلا لیتے ہیں جسے دیکھ کر قریب ہی کے لڑکوں کے کالج کے طلبہ لڑکیوں کی حمائت میں نکل آتے ہیں اور اس کے بعد.....

اس کے بعد کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیونکر ایک واضح ٹریفک حادثے سے پیدا ہونے والے غصے کو لسانی تفریق کا نام دے دیا گیا؟ کسی کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آیا. کسی نے اس واقعے کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا یا یہ حادثہ بذات خود کسی سازش کا پیش خیمہ تھا؟ کوئی نہیں جانتا. علم ہے تو بس اتنا کہ اگلے بیسیوں برس ایک خوف کی سی کیفیت میں گذر گئے. ایسا خوف کہ جس کے لئے کسی شاعر نے کہا تھا کہ"   آدمی سے ڈرتے ہو! آدمی تو تم بھی ہو".

سب ابن آدم اور بنت حوا ہیں ایک نبی کے امتی ایک مذہب کے پیروکار ہیں پھر ہم کیوں بھول گئے کہ حادثات شناختی کارڈ دیکھ کر نہیں ہوتے یہ کسی کے ساتھ بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ حادثات کا معرکہ ایک انسان کا دوسرے انسان سے نہیں بلکہ ایک راہ چلتے انسان کا دیو ہیکل مشین کے ساتھ ہوتا ہے جسے چلانے والا یا یا اناڑی ہوتا ہے یا کسی نشے کے زیر اثر اس مشین کو قابو میں رکھنے سے قاصر ہوتا ہے. یہاں پندرہ سال پہلے پیش آنے والے ایک واقعے کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا جب کچھ ایسے ہی خوف بھرے دن چل رہے تھے....میں بہت دیر سے بس اسٹاپ پر کھڑی تھی آس پاس کئی رکشے موجود تھے لیکن افواہوں کے زیر اثر میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ گھر واپسی کے لئے کسی رکشہ ڈرائیور پر بھروسہ کروں وجہ وہی قومیت کا فرق تھی لیکن جب بہت تاخیر ہونے لگی تو ہمت مجتمع کر کے ایک رکشے والے سے بات کی اسے راستہ سمجھایا تو میرے گھر کا راستہ اس کے لئے نیا تھا. بھلی شکل اور نسبتا مہذب انداز گفتگو کے پیش نظر میں نے اس سے کہا کہ بھائی تم چلوراستہ میں سمجھا دوں گی اور یہ بھی بتادو کہ کرایہ کتنا ہوگا. آپ جتنا کرایہ دیتی ہیں اتنا ہی دے دیجئے گا مجھے بھی بہت دیر سے کوئی سواری نہیں ملی....سفر شروع ہوگیا میں دل ہی دل میں گھبرا رہی تھی لوگوں کی باتیں کانوں میں گونج رہی تھیں "رکشے پر مت بیٹھنا، بیٹھنا بھی تو دیکھ بھال کر، پتہ نہیں کدھر لے جائے"؟ جوں جوں گھر کی طرف جانے کا راستہ سمٹ رہا تھا میرا دل بھی قابو میں آتا جارہا تھا. پھر جانی پہچانی سڑکیں شروع ہو گئیں اور میرا اعتمام مکمل طور پربحال ہونے لگا. دل ہی دل میں سوچا شکر ہے اچھے انسان سے ملاقات ہوئی،درست راستوں سے گھر کی طرف لے جارہا ہے یہی سوچ رہی تھی کہ میری نگاہ عقبی آئینے پر پڑی اور میں چونک گئی! وہی خوف وہی اضطراب جو کچھ دیر پہلے میرے حواس پر چھایا ہوا تھا اب رکشے والے کے چہرے پر دکھائی دے رہا تھا. ایسا کیوں؟ میں سوچ ہی رہی تھی کہ میری نظر میرے گھر میری جنت پر پڑی تو میں نے تقریبا چیختے ہوئے کہا کہ لو بھئی میری منزل آگئی بس یہیں روک دو! میں رکشے سے اتری کرایہ ادا کرنے کے لئے پرس کا ایف بی آر جتنا بڑا منہ کھولا ۱...اوہ میرے حساب سے جو کرایہ بنتا تھا اس سے پچاس روپے کم تھے میں نے رکشہ ڈرائیور کو رقم تھماتے ہوئے کہا یہ رکھ لیں باقی کے پچاس روپے میں گھر سے لے کر آتی ہوں. رکشہ ڈرائیور اس عرصے میں بالکل ہی بدحواس ہو چکا تھا بولا! نہیں باجی بس ٹھیک ہے مجھے جلدی واپس جانا ہے. ارے بھئی دو منٹ لگیں گے اپنے پیسے لیتے جاو ... میں روکتی رہ گئی اور رکشہ ڈرائیور یہ جا وہ جا.

 رکشہ ڈرائیور اس قدر بوکھلایا ہوا کیوں تھا؟ یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی. لاکھ وجہ ڈھونڈنا چاہی مگر گتھی سلجھ کر نہ دی لیکن جیسے ہی میں نے اپنے اطراف میں نظر دوڑائی تو یکدم تمام گرہیں کھلنے لگیں. وہی خوف جو مجھے رکشے میں بیٹھنے سے پہلے تھا وہ اب میرے علاقے کو دیکھ کررکشہ ڈرائیور پر طاری ہوگیا تھا. جیسے میں اس کی قومیت سے گھبرا رہی تھی ویسے ہی وہ میرے علاقے میں موجود اکثریت کو دیکھ کر ڈر گیا تھا۔ ابن آدم ابن آدم سے خوفزدہ تھایا یوں کہہ لیجیے کہ ہابیل قابیل سے خوفزدہ تھا. درحقیقت مجھے یا اس رکشہ ڈرائیور کو خوف تو ان مشینوں سے کھانا چاہیئے جو بہت خامشی کے ساتھ ہم پر غالب آتی جا رہی ہیں. کبھی لہراتی بل کھاتی سڑکوں پر یکا یک موت کا پیغام بن جاتی ہیں،کبھی الیکٹر انکس کی صورت اتنے عیش کا عادی بنادیتی ہیں کہ انسان ہر وقت گویا مفلوج ہو کر پڑا رہتا ہے اور کبھی یہ مشین کمپیوٹر کی صورت مصنوعی ذہانت کے بہانے دنیا بھر کی مجبور و بے بس انسانیت کو تہس نہس کردیتیہے.

ہاں تو میں یہ کہہ رہی تھی کہ!  آج مجھے پرانے مگر تلخ واقعات یاد آرہے ہیں اور اس کی وجہ دور حاضر کے حالات ہیں کراچی شہر کے باسیوں کے لئے سڑکوں پر سفر جہاد بن گیا ہے.

تحریر: فوزیہ فرخ

Comments

Anonymous said…
This truly sketches the situation of my beloved city Karachi.
EXCELLENT

Popular posts from this blog

جامعہ کراچی کی ایک یادگار بیٹھک

جنرل راحیل شریف سے فیلڈ مارشل عاصم منیر تک ہم آج بھی 2015 میں کھڑے ہیں.....ماضی کاایک کالم جس میں شخصیات کی ترتیب قاری خود دے سکتے ہیں؟

سندھ کے گدھ (حصہ اول )