گولڈن ووٹ کی ایجاد کے بعد کراچی کے ووٹ بینک پر کنٹرول کی حکمت عملی

 شہر قائد کی سیاسی ابجد پر نظر رکھنے والے تجربہ کار ذہن اب اس بات پر متفق ہو رہے ہیں کہ کراچی اب ماضی کے مقابلے میں ایک بالکل نئے سیاسی، معاشی اور معاشرتی نقشے میں ڈھل چکا ہے. شہر کی آبادی میں مہاجر کمیونٹی سب سے بڑی لسانی گروپ سمجھی جاتی ہے جن کا تناسب تقریباً %50.60 ہے پشتون %13.52 اور سندھی %11.12 ہیں.لسانی آبادی کا یہ بدلتا ہوا تناسب واضح اشارہ ہے کہ کراچی کی نسلی شناخت اور سیاسی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں اور کوئی بھی جماعت اگر صرف ایک ہی شناخت پر انحصار کرے گی تو اس کی مقبولیت محدود ہو جائے گی. 


متحدہ قومی موومنٹ جو کبھی کراچی کی سب سے بڑی شہری جماعت تھی اب اندرونی دھڑے بندی، قیادت کے اختلافات اور عوامی رابطے کی کمی کی وجہ سے اپنا اثر کھو چکی ہے دوسری طرف تحریک انصاف نے 2018 کے انتخابات میں کراچی میں ناقابل یقین انتخابی کامیابی کے نتیجے میں بہت سے حلقے جیت کر سندھ کی سیاست میں ایک نئے شراکت دار کو جنم دیا.عوامی مزاج اور بدلتے سیاسی موسم کی  ایک نئی مثال قائم کی. لیکن آج اس جماعت کو گورننس کے معاملات میں نا تجربہ کاری، اداروں سے تصادم اور عوامی امنگوں پر پورا نہ اتر سکنے جیسے مسائل کا سامنا ہے. پیپلز پارٹی سندھ میں مضبوط سیاسی اثر رکھتی ہے لیکن کراچی میں ان کا ووٹ بینک اب بھی مخصوص علاقوں تک محدود ہے. جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں متوسط طبقے اور لیبر علاقوں میں ایک اخلاقی اور مذہبی موقف کے ساتھ موجود ہیں ان کے پاس وسائل اور تنظیمی استعداد محدود ہے. موجودہ صورتحال کے تناظر میں اگر کوئی جماعت کراچی میں ووٹ بینک بڑھانا چاہتی ہے تو اسے مہاجر شناخت کے ساتھ ساتھ چھوٹے نسلی گروہوں جیسا کہ اعوان، ہزارہ وال، پشتون آبادیوں کو اپنی قیادت اور پالیسیوں میں شامل کرنا ہوگا. ان کے مقامی رہنماؤں کو اہمیت دینا ہوگی تاکہ یہ برادریاں خود کو اس جماعت کا حصہ سمجھیں. ان برادریوں پر نظر کرم صرف انتخابی مہمات کے وقت نہیں بلکہ سال بھر ان علاقوں میں موجود رہ کر مسائل کے حل کے لیے کوششیں اہم کردار ادا کرسکتی ہین. ساتھ ہی پانی صفائی بجلی صحت اور روزگار جیسے مسائل پر عملی اقدامات کرنے ہوں گے. نوجوان ووٹرز جو سب سے بڑا طبقہ ہیں ان کے لیے ملازمتیں، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن پر مبنی پالیسی بنانا ہوگی کم وعدے کرنا ہوں گے مگر پورے کرنا ہوں گے تاکہ اعتماد بحال ہو. MQM جیسی جماعت کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنے دھڑے ختم کر کے ایک متحدہ پلیٹ فارم پر واپس آئے تاکہ ٹوٹا ہوا ووٹ بینک دوبارہ اکٹھا ہو سکے. 

کراچی میں نسلی تنوع، مقامی مسائل، نوجوانوں کی امیدیں اور اتحاد کی پالیسی ہی وہ راستہ ہے جس سے کوئی جماعت دوبارہ اپنی مقبولیت حاصل کر سکتی ہے اور شہر میں اپنا سیاسی کردار مضبوط بنا سکتی ہے. 


تحریر: سنگی راشد محمود اعوان

Comments

Popular posts from this blog

جامعہ کراچی کی ایک یادگار بیٹھک

جنرل راحیل شریف سے فیلڈ مارشل عاصم منیر تک ہم آج بھی 2015 میں کھڑے ہیں.....ماضی کاایک کالم جس میں شخصیات کی ترتیب قاری خود دے سکتے ہیں؟

سندھ کے گدھ (حصہ اول )